the etemaad urdu daily news
آیت شریف حدیث شریف وقت نماز

ای پیپر

انگلش ویکلی

To Advertise Here
Please Contact
editor@etemaaddaily.com

اوپینین پول

کیا آپ کو لگتا ہے کہ روتوراج گائیکواڑ چنئی سپر کنگز کے لیے اچھے کپتان ثابت ہوں گے؟

جی ہاں
نہیں
کہہ نہیں سکتے

ایڈوکیٹ نازیہ الہیٰ خان ‘ کولکاتا
ایڈوکیٹ کلکتہ ہائی کورٹ وسپریم کورٹ
مسلم پرسنل لا‘ مسلم شریعت‘ مسلم معاشرہ پر انگشت نمائی ان دنوں ایک فیشن ساہے ۔مسلمانوں کے خلاف جوجس قدرہرزہ سرائی کرسکتاہے وہ اتنا ہی ’ سیکولر‘ روادار ‘ اور’ ماڈرن‘سمجھا جائے گا اورمسلم مخالف قوتیں اس کی ہر یاوہ گوئی کو ’ دانشوری‘ کی قباپہناکر اہل دنیا کے سامنے پیش کریں گی ۔ایک سلسلہ ہے جو آغاز اسلام سے اکسویں صدی کی اس دوسری دہائی میں بھی جاری ہے سلمان رشدی‘ تسلیمہ نسرین کے قبیلہ کے ساتھ ساتھ جسٹس کمال پاشاجیسے افراد کا بھی ایک گروہ ہے جو فقط اپنی نام آوری اور سرخیوں میں آنے کیلئے ایسی ’ نادرخیالی‘ کا اظہار کرتا رہتا ہے ۔
محترم جسٹس کمال پاشا نے اپنے یہ ’نادر افکار و خیالات‘ ایک ایسے اسٹیج سے پیش کیا ہے جسے قاضی کوڈ میں ’ پنرجنی چیری ٹیبل ٹرسٹ نے عورتوں کی ترقی پسندی کے نام پر سجایاتھااورجس کے کرتادھرتا پس پشت زعفرانی ذہنیت کے حامل ہیں ‘ ان کی خواتین ’ ترقی پسندی‘ کا تمغہ سجائے معاشرہ میں بے راہ روی کی تبلیغ کررہی ہیں۔ اس لئے اس اسٹیج سے اسلام پر سنگ ملامت کااچھالاجاناکوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے ۔اس اسٹیج سے جسٹس موصوف نے اسلام ‘ مسلمانوں اورعلما کرام کو سردار کھڑا کردیا اور یکے بعد دیگرے ان کے خلاف فرد جرم عائد کردیا ۔ اسلام کو عورت مخالف قرار دیا ‘مسلمانوں کو فرسودگی کا طعنہ سنایا اور علما کرام کی قابلیت پرسوال کھڑے کئے اور عورتوں کی بیک وقت چار شادیوں کا ’ فیصلہ ‘ سناڈالا۔
ہوناتو یہ چاہئے کہ محترم جسٹس کمال پاشا کے ان خیالات کو ’نام آوری‘ اور’ شہرت‘ کے حصول کی ایک کوشش قرار دی جائے مگر اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ان کی اپنی علمیت اور قابلیت پر پڑے پردے اٹھایاجائے اور انہیں یہ بتایا جائے کہ اسلام ہی واحد مذہب ہے جس نے عورتوں کو مردوں کے نہ صرف برابر قرار دیاہے بلکہ اسی مذہب نے دنیا میں سب سے پہلے عورتوں کے حقوق طے کئے ورنہ اسلام سے قبل تو آج کے جدیدترین سمجھے جانے والے یوروپ کے کلیسائوںمیں بھی عورت داروغہ جہنم ہی سمجھی جاتی تھی ‘ ایک جنس کی طرح اس کی خرید و فروخت عام تھی ‘ وقار اور عزت تو دور کی بات ہے اسے انسان ہی نہیں سمجھاجاتاتھا جسٹس کمال پاشاکو بازخوانی کی ضرورت ہے وہ ایک بار تاریخ اسلام کے ساتھ تاریخ یوروپ کا بھی سرسری جائزہ لے لیں اور اس کا تقابلہ مطالعہ کریں عین ممکن ہے ان کی ’غلط فہمی‘ رفع ہوجائے گی اگر صحیح معنوں میں کوئی غلط فہمی ہے تو ۔
جسٹس موصوف کا سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ صرف مسلمان مرد ہی چارشادی کیوں کرسکتے ہیں مسلمان عورت ایک وقت میں چارشادی کیوں نہیں کرسکتی ہے ؟
انہیں شاید یہ علم نہیں ہے کہ



قرآن دنیا کی واحد الہامی کتا ب ہے جو ایک ہی شادی کی ترغیب دیتی ہے اور کوئی ایسی مقدس کتاب موجود نہیں ہے جو ایک شادی کا حکم دیتی ہو۔
آپ پوری گیتا ‘رامائن اورمہا بھارت دیکھ لیں۔ کہیں آپ کو یہ لکھا نہیں ملے گا کہ ایک شادی کرو حتی کہ بائبل میں بھی آپ ایک شادی کا حکم تلاش نہیں کر سکیں گے۔
اگر آپ ہندوستانی قانون کا جائزہ لیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ پہلی دفعہ 1954میں کثرت ازدواج پر پابندی لگائی گئی۔ اس سے قبل ہندوستان میں قانونی طور پر بھی مرد کو ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کی اجازت تھی۔1954میں ہندو میرج ایکٹ کا نفاذ ہوا جس میں ہندوؤں کو ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے پر پابندی عاید کر دی گئی۔اگر آپ اعداد و شمار کا تجزیہ کریں تو صورتِ حال آپ کے سامنے واضح ہو جائے گی۔  ایک تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق ہندوؤں میں ایک سے زاید شادیوں کی شرح 6 فی صد جبکہ مسلمانوں میں یہ شرح اس سے کہیں کم 4.30 فی صد ہے۔
اس وقت قرآن ہی دنیا کی واحد مذہبی کتاب ہے جو ایک شادی کا حکم دیتی ہے۔سورہ نسامیں کہاگیا ہے کہ (ترجمہ)
’اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کر سکو گے تو ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہارے لئے پسندیدہ اور حلال ہوں، دو دو اور تین تین اور چار چار (مگر یہ اجازت بشرطِ عدل ہے)، پھر اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم (زائد بیویوں میں) عدل نہیں کر سکو گے تو صرف ایک ہی عورت سے (نکاح کرو) یا وہ کنیزیں جو (شرعاً) تمہاری ملکیت میں آئی ہوں، یہ بات اس سے قریب تر ہے کہ تم سے ظلم نہ ہو۔‘
یہ حکم کہ پھر ایک ہی شادی کرو، قرآن کے علاوہ کسی صحیفہ مقدسہ میں نہیں دیا گیا۔ عربوں میں اسلام سے قبل مرد بہت سی شادیاں کیا کرتے تھے۔ بعض مردوں کی تو سینکڑوں بیویاں تھیں۔اسلام نے ایک تو بیویوں کی حد مقرر کر دی اور زیادہ سے زیادہ تعداد چار معین کر دی اور ایک سے زاید شادیوں کی صورت میں ایک بہت سخت شرط بھی عاید کر دی وہ یہ کہ اگر آپ ایک سے زاید شادیاں کرتے ہین تو پھر آپ کو اپنی دونوں، تینوں یا چاروں بیویوں کے درمیان پورا عدل کرنا ہو گا بصورتِ دیگر ایک ہی شادی کی اجازت ہے۔پوری دنیا کا موجودہ منظرنامہ ہمیں بتاتا ہے کہ بالعموم مسلمان ایک ہی شادی کرتے ہیں ۔
جہاں تک عورتوں کی چارشادی کی بات ہے اس پر میں کچھ نہیں کہوں گی جسٹس موصوف عاقل و بالغ ہیں ‘ آزاد ہیں ‘ روادار ہیں ‘ برداشت اور تحمل کا مادہ ہے ان کے اندر اورسب سے بڑی بات ہے کہ وہ جسٹس ہیںان کے فرمودات عالیہ پر کوئی سوال کھڑی کرکے میں ان کی شان میں گستاخی کی مرتکب نہیں ہوناچاہتی ۔جسٹس ذی وقارعورتوں کی چارشادی کی وکالت کررہے ہیں میں ان کی اہلیہ محترمہ کیلئے اپنے بھائی کا رشتہ پیش کررہی ہوں ۔ کیا انہیں قبول ہے ؟

اس پوسٹ کے لئے 1 تبصرہ ہے
Muqtar Mohammed Says:
The subject here we are talking about is whether or not a woman can marry 4 or not. We are talking about so called "Justice Mr. Kamal Basha". To possess a legal position in Indian judicial system I believe a person should have a broad knowledge of our constitution as well as applying the constitution to public at large. To deliver justice, one should have expertise in Indian constitution and at least basic knowledge of major religions of India. Islam being the largest minority of India, it is incumbent upon people holding positions for delivering justice should have minimum knowledge in the area in which they are supposed to deliver the justice. In this case, he is giving a lecture, not delivering justice. My concern is if such people pose a question "can a woman marry four men?". is insane. Such person (s)should be eliminated from performing duties as a judge since they lack of basic scientific/social/historical/modern/constitutional/obligatory knowledge and cannot perform the duties of a "judge". He should spend quite some time understanding what Islam is and what it delivers to humanity, how and why it is growing since Prophet Mohammed (Sallalahu Alaihi Wa Sallam) was chosen as prophet. Why is this religion is the single most practice religion on earth. This is a basic intellectual challenge to him to answer why a religion, he is objecting to or casting doubt, is growing with such a fast pace even today if it is not a true religion. If he does answer this question with normal thinking (not as a generous which he is not), I think it solves many problems as a so called "justice" and as a so called "Muslim". It will help him to becoming a better person if not a “Muslim”.

Comment posted on March 09 2016
تبصرہ کیجئے
نام:
ای میل:
تبصرہ:
بتایا گیا کوڈ داخل کرے:


Can't read the image? click here to refresh
خصوصی میں زیادہ دیکھے گئے
http://st-josephs.in/
https://www.owaisihospital.com/
https://www.darussalambank.com

موسم کا حال

حیدرآباد

etemaad rishtey - a muslim matrimony
© 2024 Etemaad Urdu Daily, All Rights Reserved.